آئنہ خانے کی حیرت سے تجھے دیکھتے ہیں
وہ جو پامال زمانہ ہیں مرے تخت نشیں
دیکھ تو کیسی محبت سے تجھے دیکھتے ہیں
کاسۂ دید میں بس ایک جھلک کا سکہ
ہم فقیروں کی قناعت سے تجھے دیکھتے ہیں
تیرے جانے کا خیال آتا ہے گھر سے جس دم
در و دیوار کی حسرت سے تجھے دیکھتے ہیں
تیرے کوچے میں چلے جاتے ہیں قاصد بن کر
اور اکثر اسی صورت سے تجھے دیکھتے ہیں
تجھ کو کیا علم تجھے ہارنے والے کچھ لوگ
کس قدر سخت ندامت سے تجھے دیکھتے ہیں
کہہ گئی باد صبا آج ترے کان میں کیا
پھول کس درجہ شرارت سے تجھے دیکھتے ہیں




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں