ضروری ہو گیا آنکھوں کا با وضو ہونا
کہاں نصیب میں تکمیل آرزو ہونا
دیار سبز میں اس دل کا سرخ رو ہونا
سماعتوں کے لئے ساعت شگفت گلاب
ہوائے شہر نبوت سے گفتگو ہونا
عجب طرح کسی صحرا نشیں کی یاد آئی
کہ چشم خشک مری چاہے آب جو ہونا
کھلا ہے نام پہ کیسے طبیب کے لیکن
یہ زخم وہ ہے کہ مانگے نہیں رفو ہونا
مری جڑیں اسی مٹی میں ہوں مگر چاہوں
خیال طیبہ سے ہی روح کی نمو ہونا
گناہ گار ہوں میں اور چشم پوش ہے تو
بہت ہے تیری نظر کا کبھو کبھو ہونا




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں