• __________________________________


مَحبتوں کا صِلہ زَخمِ جَاں میں رَکھا ہے

مَحبتوں کا صِلہ زَخمِ جَاں میں رَکھا ہے
وہ مُسکرائے کہ خَنجر دَہاں میں رَکھا ہے

وَفا کے نام پہ ہم نے عَذاب سَہنے تھے
سو اِک فَریب کا پیکر گُماں میں رَکھا ہے

بَہارِ خواب کی اُمید کی تھی لیکن پھر
خِزاں کا نَقش ہی ہر آستاں میں رَکھا ہے

 جو سَنگ دِل تھے وَہی مَسندوں پہ بیٹھے ہیں
غریبِ دِل کو فَقط اِمتحاں میں رَکھا ہے

یہ دِل کی آگ بُجھانے کا ذِکر کیسا ہے؟ 
کہ شعلہ اور بھی ہر اُستخواں میں رَکھا ہے

یہ عِشق ، خَواب نہیں اِک جِلا وَطن دکھ ہے
جو اَپنے خُون سے ہم نے اَماں میں رَکھا ہے

سَحر کی روشنیوں پَر یَقین مَت کرنا
اَندھیروں ہی کو تو ہَر کَہکشاں میں رَکھا ہے

ہَزار بار کِیا ہم نے صَبْر کا دَعویٰ
مَگر عَذاب ہی ہَر اِمتحاں میں رَکھا ہے

جو بانٹے دَرد مرا سَمجھے میری خاموشی
ایسا کوئی نَہیں اِس جَہاں میں رکھا ہے؟ 

یَہاں کے قاضی و عادل تو سَنگ دِل نکلے
عِبادتوں کو بھی سُود و زَیاں میں رکھا ہے

ہَزار نَقش تھے تَقدیر کے حِجابوں میں
سو اِک اُمید کو چَشمِ تپاں میں رَکھا ہے

مَحبتوں کا تَقدّس بھی بیچ ڈالا گیا
وَفا کا نام فَقط دَاستاں میں رَکھا ہے

میں اَپنے اَشک کو پیکان کر گیا ہُوں زیبٓ⁠
سو ایک شعلے کو چشمِ فُغاں میں رَکھا ہے

منجانب: الموسا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں