• __________________________________


روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے

 روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے

چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے


ایک دیوانہ مسافر ہے مری آنکھوں میں

وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے چل پڑتا ہے


اپنی تعبیر کے چکر میں مرا جاگتا خواب

روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے


اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو

دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے


روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں

روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں