• __________________________________


کیف سا اب ہو گیا پیدا غم ایام میں

کیف سا اب ہو گیا پیدا غم ایام میں
کیا طلسم سر خوشی ہے دور صبح و شام میں

خود فریبی کے سہارے زندگی کٹتی رہی
آسرا ملتا رہا دل کو امید خام میں

زندگی کی عارضی خوشیوں پہ ہم مرتے نہیں
ہم کو جینا آ گیا دور غم و آلام میں

اک اشارہ چاہئے ساقی کی چشم مست کا
دونوں عالم کو ڈبو سکتا ہوں اپنے جام میں

اللہ اللہ میری چشم شوق کی یک بینیاں
ایک تم ہی تم نظر آتے ہو بزم عام میں

زندگی میں اس قدر رسوا ہوئے فرحتؔ کہ اب
پردہ پوشی ڈھونڈتے ہیں موت کے پیغام میں

رقص کرتا ہے تری آنکھوں میں یوں جوش شباب
کیف جیسے جھومتا ہے بادۂ گلفام میں


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں