کام پت جھڑ کے اسیروں کی دعا آئی ہو
لوٹ آئی ہو وہ شب جس کے گزر جانے پر
گھاٹ سے پائلیں بجنے کی صدا آئی ہو
اسی امید میں ہر موج ہوا کو چوما
چھو کے شاید مرے پیاروں کی قبا آئی ہو
گیت جتنے لکھے ان کے لیے اے موج صبا
دل یہی چاہا کہ تو ان کو سنا آئی ہو
آہٹیں صرف ہواؤں کی ہی دستک نہ بنیں
اب تو دروازوں پہ مانوس صدا آئی ہو
یوں سر عام کھلے سر میں کہاں تک بیٹھوں
کسی جانب سے تو اب میری ردا آئی ہو
تیرے تحفے تو سب اچھے ہیں مگر موج بہار
اب کے میرے لیے خوشبوئے حنا آئی ہو
جب بھی برسات کے دن آئے یہی جی چاہا
دھوپ کے شہر میں بھی گھر کے گھٹا آئی ہو




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں