• __________________________________


خدا پرست ملے اور نہ بت پرست ملے

خدا پرست ملے اور نہ بت پرست ملے
ملے جو لوگ وہ اپنے نشے میں مست ملے

کہیں خود اپنی درستی کا دکھ نہیں دیکھا
بہت جہاں کی درستی کے بندوبست ملے

کہیں تو خاک نشیں کچھ بلند بھی ہوں گے
ہزاروں اپنی بلندی میں کتنے پست ملے

یہ سہل فتح تو پھیکی سی لگ رہی ہے مجھے
کسی عظیم مہم میں کبھی شکست ملے

یہ شاخ گل کی لچک بھی پیام رکھتی ہے
بسان تیغ تھے جو ہم کو حق پرست ملے

سنا ہے چند تہی دامنوں میں ظرف تو تھا
سرورؔ ہم کو تونگر بھی تنگ دست ملے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں