• __________________________________


آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں

آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں
اے جان سخن میں تیرا چہرہ بھی تو دیکھوں

دستک تو کچھ ایسی ہے کہ دل چھونے لگی ہے
اس حبس میں بارش کا یہ جھونکا بھی تو دیکھوں

صحرا کی طرح رہتے ہوئے تھک گئیں آنکھیں
دکھ کہتا ہے میں اب کوئی دریا بھی تو دیکھوں

یہ کیا کہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لئے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں

اب تک تو مرے شعر حوالہ رہے تیرا
اب میں تری رسوائی کا چرچا بھی تو دیکھوں

اب تک جو سراب آئے تھے انجانے میں آئے
پہچانے ہوئے رستوں کا دھوکا بھی تو دیکھوں


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں