• __________________________________


یہ جو سنا اک دن وہ حویلی یکسر بے آثار گری

یہ جو سنا اک دن وہ حویلی یکسر بے آثار گری
ہم جب بھی سائے میں بیٹھے دل پر اک دیوار گری

جوں ہی مڑ کر دیکھا میں نے بیچ اٹھی تھی اک دیوار
بس یوں سمجھو میرے اوپر بجلی سی اک بار گری

دھار پہ باڑ رکھی جائے اور ہم اس کے گھائل ٹھہریں
میں نے دیکھا اور نظروں سے ان پلکوں کی دھار گری

گرنے والی ان تعمیروں میں بھی ایک سلیقہ تھا
تم اینٹوں کی پوچھ رہے ہو مٹی تک ہموار گری

بے داری کے بستر پر میں ان کے خواب سجاتا ہوں
نیند بھی جن کی ٹاٹ کے اوپر خوابوں سے نادار گری

خوب ہی تھی وہ قوم شہیداں یعنی سب بے زخم و خراش
میں بھی اس صف میں تھا شامل وہ صف جو بے وار گری

ہر لمحہ گھمسان کا رن ہے کون اپنے اوسان میں ہے
کون ہے یہ؟ اچھا تو میں ہوں لاش تو ہاں اک یار گری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں