• __________________________________


سمندروں کے ادھر سے کوئی صدا آئی

سمندروں کے ادھر سے کوئی صدا آئی
دلوں کے بند دریچے کھلے ہوا آئی

سرک گئے تھے جو آنچل وہ پھر سنوارے گئے
کھلے ہوئے تھے جو سر ان پہ پھر ردا آئی

اتر رہی ہیں عجب خوشبوئیں رگ و پے میں
یہ کس کو چھو کے مرے شہر میں صبا آئی

اسے پکارا تو ہونٹوں پہ کوئی نام نہ تھا
محبتوں کے سفر میں عجب فضا آئی

کہیں رہے وہ مگر خیریت کے ساتھ رہے
اٹھائے ہاتھ تو یاد ایک ہی دعا آئی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں