• __________________________________


الزام تھا دیے پہ نہ تقصیر رات کی

الزام تھا دیے پہ نہ تقصیر رات کی
ہم نے تو بس ہوا کے تعلق سے بات کی

ہر صبح جب کہ صبح قیامت کی طرح آئے
ایسے میں کون ہوگا جو سوچے ثبات کی

تکلیف تو ہوئی مگر اے ناخن ملال
کھلنے لگی گرہ بھی کوئی اپنی ذات کی

زنجیر ہے جزیرہ ہے یا شاخ بے ثمر
اب کون سی لکیر سلامت ہے ہات کی

مرنے اگر نہ پائی تو زندہ بھی کب رہی
تنہا کٹی وہ عمر جو تھی تیرے ساتھ کی

پھر بھی نہ میرا قافلہ لٹنے سے بچ سکا
میں نے خبر تو رکھی تھی ایک ایک گھات کی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں