آواز دے رہا ہوں تو آتا نہیں کوئی
کیوں کر خفا رہوں کہ مناتا نہیں کوئی
کچھ تو الگ ہے آپ میں اے میرے دلنشیں
ہم سر پھیروں کو یوں ہی تو بھاتا نہیں کوئی
آیا ہوں تیرے پاس تو کوئی تو ہے وجہ
ور نہ انا کے بت کو گراتا نہیں کوئی
چرے کو میرے دیکھ یا آنکھوں کی سمت جھانک
اندر کی بے بسی کا بتاتا نہیں کوئی
کم عقل تجھ کو یہ بھی بتانا پڑے گا کیا
کم عقل تجھ کو یہ بھی بتاتا نہیں کوئی
اور حسام اس قدر ہیں کیوں بیزار مجھ سے لوگ
عرصہ ہوا کے دل بھی دکھاتا نہیں کوئی




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں