• __________________________________


رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے

رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے

مینائے مے ہے سرو نشاط بہار سے
بال تدرو جلوۂ موج شراب ہے

زخمی ہوا ہے پاشنہ پاۓ ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں نہ اقامت کی تاب ہے

جاداد بادہ نوشی رنداں ہے شش جہت
غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے

نظارہ کیا حریف ہو اس برق حسن کا
جوش بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے

گزرا اسدؔ مسرت پیغام یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشک سوال و جواب ہے

میں نا مراد دل کی تسلی کو کیا کروں
مانا کہ تیرے رخ سے نگہ کامیاب ہے

ظاہر ہے طرز قید سے صیاد کی غرض
جو دانہ دام میں ہے سو اشک کباب ہے

بے چشم دل نہ کر ہوس سیر لالہ زار
یعنی یہ ہر ورق ورق انتخاب ہے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں