• __________________________________


خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں

ابھی تیرے لبوں پہ ذکر فصل گل نہیں آیا
مگر اک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں

مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں

وصال و ہجر اب یکساں ہیں وہ منزل ہے چاہت میں
میں آنکھیں بند کر کے تجھ کو اکثر دیکھ سکتی ہوں

کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہوگی
میں اپنے گھر میں اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں

ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں
میں خود کو کس طرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں