شاید اس راہ سے گزرے گی سواری اس کی
میرا چہرہ ہے فقط اس کی نظر سے روشن
اور باقی جو ہے مضمون نگاری اس کی
آنکھ اٹھا کر جو روادار نہ تھا دیکھنے کا
وہی دل کرتا ہے اب منت و زاری اس کی
رات کی آنکھ میں ہیں ہلکے گلابی ڈورے
نیند سے پلکیں ہوئی جاتی ہیں بھاری اس کی
اس کے دربار میں حاضر ہوا یہ دل اور پھر
دیکھنے والی تھی کچھ کارگزاری اس کی
عرصۂ خواب میں رہنا ہے کہ لوٹ آنا ہے
فیصلہ کرنے کی اس بار ہے باری اس کی
آج تو اس پہ ٹھہرتی ہی نہ تھی آنکھ ذرا
اس کے جاتے ہی نظر میں نے اتاری اس کی




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں