• __________________________________


قریۂ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے

قریۂ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے
وہ مرے دل پہ نیا زخم لگانے آئے

میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ مرے گھر کے در و بام سجانے آئے

اس سے اک بار تو روٹھوں میں اسی کی مانند
اور مری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے

اسی کوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے

اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے تو کچھ بھی نہ بتانے آئے

ضبط کی شہر پناہوں کی مرے مالک خیر
غم کا سیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں