• __________________________________


اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے

اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے
کنکر سا کوئی کھٹک رہا ہے

میں اس کے خیال سے گریزاں
وہ میری صدا جھٹک رہا ہے

تحریر اسی کی ہے مگر دل
خط پڑھتے ہوئے اٹک رہا ہے

ہیں فون پہ کس کے ساتھ باتیں
اور ذہن کہاں بھٹک رہا ہے

صدیوں سے سفر میں ہے سمندر
ساحل پہ تھکن ٹپک رہا ہے

اک چاند صلیب شاخ گل پر
بالی کی طرح لٹک رہا ہے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں