پھر موسم بہار مرے گلستاں میں ہے
اک خواب ہے کہ بار دگر دیکھتے ہیں ہم
اک آشنا سی روشنی سارے مکاں میں ہے
اک شاخ یاسمین تھی کل تک خزاں اثر
اور آج سارا باغ اسی کی اماں میں ہے
تابش میں اپنی مہر و مہ و نجم سے سوا
جگنو سی یہ زمیں جو کف آسماں میں ہے
خوشبو کو ترک کر کے نہ لائے چمن میں رنگ
اتنی تو سوجھ بوجھ مرے باغباں میں ہے
لشکر کی آنکھ مال غنیمت پہ ہے لگی
سالار فوج اور کسی امتحاں میں ہے
ہر جاں نثار یاد دہانی میں منہمک
نیکی کا ہر حساب دل دوستاں میں ہے
حیرت سے دیکھتا ہے سمندر مری طرف
کشتی میں کوئی بات ہے یا بادباں میں ہے




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں