• __________________________________


عدم کا خوف تھا وہ بھی اُتار بیٹھا ھوں

عدم کا خوف تھا وہ بھی اُتار بیٹھا ھوں
 اب اپنی موت کے سر پر سوار بیٹھا ھوں

شب گماں کا فقط انتظار ہے مجھ کو
 میں اپنے حصے کا دن تو گذار بیٹھا ھوں

بہت تضاد ہے میرا جہان والوں سے 
سو اپنی ذات کا بن کر حصار بیٹھا ھوں

میرے وجود کا کوئی مشاہدہ تو کرے
 میں کیسی گرد کا بن کر غبار بیٹھا ھوں

کوئی تو آئے مرے پاس تعزیت کرنے
 وجود خاک لحد میں اتار بیٹھا ھوں

اب آئنوں سے عداوت نہیں رہی مجھکو
 تخیرات کے صدمے گذار بیٹھا ھوں

منجانب: دور فشاں 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں