اے خدا اب کے چلے زرد ہوا آہستہ آہستہ
خواب جل جائیں مری چشم تمنا بجھ جائے
بس ہتھیلی سے اڑے رنگ حنا آہستہ
زخم ہی کھولنے آئی ہے تو عجلت کیسی
چھو مرے جسم کو اے باد صبا آہستہ
ٹوٹنے اور بکھرنے کا کوئی موسم ہو
پھول کی ایک دعا موج ہوا آہستہ
جانتی ہوں کہ بچھڑنا تری مجبوری ہے
پر مری جان ملے مجھ کو سزا آہستہ
نیند پر جال سے پڑنے لگے آوازوں کے
اور پھر ہونے لگی تیری صدا آہستہ
مری چاہت میں بھی اب سوچ کا رنگ آنے لگا
اور ترا پیار بھی شدت میں ہوا آہستہ
رات جب پھول کے رخسار پہ دھیرے سے جھکی
چاند نے جھک کے کہا اور ذرا آہستہ




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں