• __________________________________


دکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا آہستہ

دکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا آہستہ
اے خدا اب کے چلے زرد ہوا آہستہ آہستہ

خواب جل جائیں مری چشم تمنا بجھ جائے
بس ہتھیلی سے اڑے رنگ حنا آہستہ

زخم ہی کھولنے آئی ہے تو عجلت کیسی
چھو مرے جسم کو اے باد صبا آہستہ

ٹوٹنے اور بکھرنے کا کوئی موسم ہو
پھول کی ایک دعا موج ہوا آہستہ

جانتی ہوں کہ بچھڑنا تری مجبوری ہے
پر مری جان ملے مجھ کو سزا آہستہ

نیند پر جال سے پڑنے لگے آوازوں کے
اور پھر ہونے لگی تیری صدا آہستہ

مری چاہت میں بھی اب سوچ کا رنگ آنے لگا
اور ترا پیار بھی شدت میں ہوا آہستہ

رات جب پھول کے رخسار پہ دھیرے سے جھکی
چاند نے جھک کے کہا اور ذرا آہستہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں