• __________________________________


سکھ سے بھی تو دوستی کبھی ہو

اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک
جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک

دم گھٹتا ہے گھر میں حبس وہ ہے
خوشبو کے لئے رکوں کہاں تک

ہر بار ہوا نہ ہوگی در پر
ہر بار مگر اٹھوں کہاں تک

پھر آ کے ہوائیں کھول دیں گی
زخم اپنے رفو کروں کہاں تک

ساحل پہ سمندروں سے بچ کر
میں نام ترا لکھوں کہاں تک

تنہائی کا ایک ایک لمحہ
ہنگاموں سے قرض لوں کہاں تک

سکھ سے بھی تو دوستی کبھی ہو
دکھ سے ہی گلے ملوں کہاں تک

گر لمس نہیں تو لفظ ہی بھیج
میں تجھ سے جدا رہوں کہاں تک

منسوب ہو ہر کرن کسی سے
اپنے ہی لیے جلوں کہاں تک

آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں
پھول اس کے لئے چنوں کہاں تک


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں