• __________________________________


جو گزر دشمن ہے اس کا رہ گزر رکھا ہے نام

جو گزر دشمن ہے اس کا رہ گزر رکھا ہے نام
ذات سے اپنی نہ ہلنے کا سفر رکھا ہے نام

پڑ گیا ہے اک بھنور اس کو سمجھ بیٹھے ہیں گھر
لہر اٹھی ہے لہر کا دیوار و در رکھا ہے نام

نام جس کا بھی نکل جائے اسی پر ہے مدار
اس کا ہونا یا نہ ہونا کیا، مگر رکھا ہے نام

ہم یہاں خود آئے ہیں لایا نہیں کوئی ہمیں
اور خدا کا ہم نے اپنے نام پر رکھا ہے نام

چاک چاکی دیکھ کر پیراہن پہنائی کی
میں نے اپنے ہر نفس کا بخیہ گر رکھا ہے نام

میرا سینہ کوئی چھلنی بھی اگر کر دے تو کیا
میں نے تو اب اپنے سینے کا سپر رکھا ہے نام

دن ہوئے پر تو کہیں ہونا کسی بھی شکل میں
جاگ کر خوابوں نے تیرا رات بھر رکھا ہے نام


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں