• __________________________________


وفا کی امید بے وفا سے

وفا کی امید بے وفا سے
 رکھا کرو گے تو رو پڑو گے
میں جی رہا ہوں جو زندگی
 تم جیا کرو گے تو رو پڑو گے

وہ بھول بیٹھا ہے جو سبھی کچھ
 تو کیوں نہ دل تم اسے بھلا دو
سنو پرانا وہ زخم پھر سے
 ہرا کرو گے تو رو پڑو گے

سجا کے گھر کو رکھا ہے جس نے
 بہار ہر پل کیا ہے جس نے
جگر کا ٹکڑا وہ بیٹی گھر سے
 وداع کرو گے تو رو پڑو گے

ورہ کی راتیں جدائی کے دن
 بنے تھے دشمن ہماری جاں کے
گزارا تم بن ہے کیسے جیون
 پتہ کرو گے تو رو پڑو گے

تمہیں کو چاہا تمہیں کو سوچا 
تمہارا ہی غم بیاں کیا ہے
اگر غزل تم ہماری دل سے 
پڑھا کرو گے تو رو پڑو گے

برا بہت ہی ہے روگ دل کا 
نہیں ہے جاتا یہ جاں لیے بن
محبتوں کا جو بھول کر بھی 
نشہ کرو گے تو رو پڑو گے

بہت ہی کانٹوں بھری ڈگر ہے 
نہ ختم ہو جو یہ وہ سفر ہے
جہاں میں سچ کی ڈگر پہ ہیراؔ
 چلا کرو گے تو رو پڑو گے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں