مرے وجود پر تری گواہی اور ہو گئی
رفو گران شہر بھی کمال لوگ تھے مگر
ستارہ ساز ہاتھ میں قبا ہی اور ہو گئی
اندھیرے میں تھے جب تلک زمانہ ساز گار تھا
چراغ کیا جلا دیا ہوا ہی اور ہو گئی
بہت سے لوگ شام تک کواڑ کھول کر رہے
فقیر شہر کی مگر صدا ہی اور ہو گئی
بہت سنبھل کے چلنے والی تھی پر اب کے بار تو
وہ گل کھلے کہ شوخیٔ صبا ہی اور ہو گئی
نہ جانے دشمنوں کی کون بات یاد آ گئی
لبوں تک آتے آتے بد دعا ہی اور ہو گئی
یہ میرے ہاتھ کی لکیریں کھل رہی تھیں یا کہ خود
شگن کی رات خوشبوئے حنا ہی اور ہو گئی
ذرا سی کرگسوں کو آب و دانہ کی جو شہہ ملی
عقاب سے خطاب کی ادا ہی اور ہو گئی




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں