• __________________________________


حریف مطلب مشکل نہیں فسون نیاز

حریف مطلب مشکل نہیں فسون نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمر خضر دراز

نہ ہو بہ ہرزہ بیاباں نورد وہم وجود
ہنوز تیرے تصور میں ہے نشیب و فراز

وصال جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں
کہ دیجے آئنۂ انتظار کو پرداز

ہر ایک ذرۂ عاشق ہے آفتاب پرست
گئی نہ خاک ہوئے پر ہواۓ جلوۂ ناز

نہ پوچھ وسعت مے خانۂ جنوں غالبؔ
جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز

فریب صنعت ایجاد کا تماشا دیکھ
نگاہ عکس فروش و خیال آئنہ ساز

ز بسکہ جلوۂ صییاد حیرت آرا ہے
اڑی ہے صفحۂ خاطر سے صورت پرواز

ہجوم فکر سے دل مثل موج لرزے ہے
کہ شیشہ نازک و صہبائے آبگینہ گداز

اسدؔ سے ترک وفا کا گماں وہ معنی ہے
کہ کھینچیے پر طائر سے صورت پرواز

ہنوز اے اثر دید ننگ رسوائی
نگاہ فتنہ خرام و در دو عالم باز


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں