• __________________________________


کہیں خیام لگیں قریۂ وصال بھی آئے

 کہیں خیام لگیں قریۂ وصال بھی آئے

شب سفر میں کبھی ساعت زوال بھی آئے


کسی افق پہ تو ہو اتصال ظلمت و نور

کہ ہم خراب بھی ہوں اور وہ خوش خصال بھی آئے


سخن میں کب سے ہے روشن یہ کیا ضروری ہے

کہ وہ ستارہ سر مطلع مثال بھی آئے


سنا ہے سیر کو نکلی ہوئی ہے موج نشاط

عجب نہیں طرف کوچۂ ملال بھی آئے


ہمیں عطیہ ترک طلب قبول نہ تھا

سو ہم تو اس کی عنایت پہ خاک ڈال بھی آئے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں