• __________________________________


شام آئی تری یادوں کے ستارے نکلے

شام آئی تری یادوں کے ستارے نکلے
رنگ ہی غم کے نہیں نقش بھی پیارے نکلے

ایک موہوم تمنا کے سہارے نکلے
چاند کے ساتھ ترے ہجر کے مارے نکلے

کوئی موسم ہو مگر شان خم و پیچ وہی
رات کی طرح کوئی زلف سنوارے نکلے

رقص جن کا ہمیں ساحل سے بہا لایا تھا
وہ بھنور آنکھ تک آئے تو کنارے نکلے

وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

دھوپ کی رت میں کوئی چھاؤں اگاتا کیسے
شاخ پھوٹی تھی کہ ہم سایوں میں آرے نکلے

عشق دریا ہے جو تیرے وہ تہی دست رہے
وہ جو ڈوبے تھے کسی اور کنارے نکلے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں