• __________________________________


مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی

مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی
دیا ہے میں نے انہیں ذوق آتش آشامی

حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

حرم کے پاس کوئی اعجمی ہے زمزمہ سنج
کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامی

مجھے یہ ڈر ہے مقامر ہیں پختہ کار بہت
نہ رنگ لائے کہیں تیرے ہاتھ کی خامی

عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہ سنجر و فقر جنید و بسطامی

قبائے علم و ہنر لطف خاص ہے ورنہ
تری نگاہ میں تھی میری نا خوش اندامی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں