• __________________________________


زندگی بے سائباں بے گھر کہیں ایسی نہ تھی

زندگی بے سائباں بے گھر کہیں ایسی نہ تھی
آسماں ایسا نہیں تھا اور زمیں ایسی نہ تھی

ہم بچھڑنے سے ہوئے گمراہ ورنہ اس سے قبل
میرا دامن تر نہ تھا تیری جبیں ایسی نہ تھی

اب جو بدلا ہے تو اپنی روح تک حیران ہوں
تیری جانب سے میں شاید بے یقیں ایسی نہ تھی

بد گمانی جب نہ تھی تو بھی نہیں تھا معترض
میں بھی تیری شخصیت پر نکتہ چیں ایسی نہ تھی

کیا مرے دل اور کیا آنکھوں کا حصہ ہے مگر
چادر شب اس سے پہلے شبنمیں ایسی نہ تھی

کیا ہوا آئی کہ اتنے پھول دل میں کھل گئے
پچھلے موسم میں یہ شاخ یاسمیں ایسی نہ تھی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں