آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
کس سے پوچھوں ترے آقا کا پتہ اے رہوار
یہ علم وہ ہے نہ اب تک کسی شانے سے اٹھا
حلقۂ خواب کو ہی گرد گلو کس ڈالا
دست قاتل کا بھی احساں نہ دوانے سے اٹھا
پھر کوئی عکس شعاعوں سے نہ بننے پایا
کیسا مہتاب مرے آئنہ خانے سے اٹھا
کیا لکھا تھا سر محضر جسے پہچانتے ہی
پاس بیٹھا ہوا ہر دوست بہانے سے اٹھا




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں