• __________________________________


تراش کر مرے بازو اڑان چھوڑ گیا

تراش کر مرے بازو اڑان چھوڑ گیا
ہوا کے پاس برہنہ کمان چھوڑ گیا

رفاقتوں کا مری اس کو دھیان کتنا تھا
زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا

عجیب شخص تھا بارش کا رنگ دیکھ کے بھی
کھلے دریچے پہ اک پھول دان چھوڑ گیا

جو بادلوں سے بھی مجھ کو چھپائے رکھتا تھا
بڑھی ہے دھوپ تو بے سائبان چھوڑ گیا

نکل گیا کہیں ان دیکھے پانیوں کی طرف
زمیں کے نام کھلا بادبان چھوڑ گیا

عقاب کو تھی غرض فاختہ پکڑنے سے
جو گر گئی تو یوں ہی نیم جان چھوڑ گیا

نہ جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے
کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا

عقب میں گہرا سمندر ہے سامنے جنگل
کس انتہا پہ مرا مہربان چھوڑ گیا


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں