جب اہلِ خرد کی باتوں پر کچھ جاہل شور مچاتے ہوں
جب بُلبل ہو تصویرِ چمن اور کوّے گیت سُناتے ہوں
جب چڑیوں کے ان گھونسلوں میں کچھ سانپ اُتارے جاتے ہوں
جب مالی اپنے گُلشن میں خود ہاتھ سے آگ لگاتے ہوں
اِس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو
جب شاہ کے ایک اشارے پر اپنوں میں نیازیں بٹتی ہوں
جب آنکھیں غُربت ماروں کی حسرت کا نظارہ کرتی ہوں
جب قلمیں ظالم جابر کی عظمت کا قصیدہ لکھتی ہوں
جب حق کی باتیں کہنے پہ انساں کی زبانیں کٹتی ہوں
اِس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو
جب مِصر کے ان بازاروں میں ، کنعان کو بیچا جاتا ہو
جب حرص ہوس کی منڈی میں ایمان کو بیچا جاتا ہو
جب صوم صلاۃ کے پردے میں قران کو بیچا جاتا ہو
انسان کو بیچا جاتا ہو ، یزدان کو بیچا جاتا ہو
اِس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو
جس دور میں کعبے والوں کو گِرجا کے نظارے بھاتے ہوں
جس دورمیں مشرق والے بھی مغرب کے ترانے گاتے ہوں
جس دور میں مُسلم لیڈر بھی کچھ کہنے سے گھبراتے ہوں
جس دور میں سبقت ، غیرت کے اسباب عدم ہو جاتے ہوں
اُس دور میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو.
❤️🩵❤️
رینگتا ہے رات کے ڈھائی بجے معلوم ہے
وقت کو بھی میری وحشت کا سمے معلوم ہے
کیوں اسے گھر کا پتہ بتلا کے شرمندہ کریں
اس نے دنیا دیکھ رکھی ہے اسے معلوم ہے
ان گنت رازوں کا مدفن ہے مرے دل کی زمیں
جانتا کوئی نہیں ہے جو مجھے معلوم ہے
روز آتا ہے نصیحت کے لیے ہمزاد اک
ٹال دیتا ہوں یہ کہہ کر، ہٹ پرے معلوم ہے
شب گزاری جائے پورے چاند کی آغوش میں
کل کا سورج کون دیکھے گا کسے معلوم ہے
آنکھیں بہتے اشک پر ہیں پاؤں ہیں دہلیز پر
چل رہا ہے کیا ترے اوپر تلے معلوم ہے
پیڑ ہونے کا ہمیں کافی ہے اتنا فائدہ
زرد کتنے برگ ہیں کتنے ہرے معلوم ہے